Locus of Control
(قلم کلامی :قاسم علی شاہ)
کسی جھیل کے پرسکون پانی میں اگر آپ کوئی پتھر پھینکیں توپانی میں ہلچل ہوگی ۔چلتی گاڑی کی بریک پر پاؤں دبائیں تو وہ رُک جائے گی ۔ گیند کو زور سے دیوار کی طرف پھینکیں تووہ اتنی ہی زور سے واپس آئے گی۔یہ تمام ردعمل کی صورتیں ہیں ۔انسان بھی ہر کام اور بات پر ردِعمل دینا چاہتا ہے اور اگر ہم مشاہدہ کریں تو ہمارے ہاں دو طرح کے لوگ ہیں ۔ایک وہ جن کا
Locus of Control
ان کے اندر ہوتا ہے اور دوسرے وہ جن کا LOCباہر ہوتا ہے۔
Locus of Control
کا مطلب ہے کنٹرول کرنے کا نکتہ یا سبب ۔انسان کی سوچ اور عمل میں کوئی بھی حرکت پیدا ہوتی ہے تو اس کاکوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔مثال کے طور پرچولہے پر رکھے گرم برتن کے ساتھ اگر انسان کا ہاتھ لگ جائے تو وہ فورا پیچھے کرلیتا ہے ۔ہاتھ کے پیچھے ہٹنے کا سبب وہ گرم برتن ہے جو باہر موجود ہے۔اسی طرح انسان رات کوکوئی خوف ناک خواب دیکھے اور اس قدر وحشت ہو کہ وہ گھبراکر اٹھے اور خوفزدہ ہوجائے تو اب یہاں اس کو اٹھنے اور خوفزدہ کرنے پر مجبور کرنے والا ایک سبب ہے اور وہ سبب اس کے اندر ہے یعنی وہ خواب جو اس نے دیکھا ۔
LOC
پر کی جانے والی ایک ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کا Locus of Control باہر ہوتا ہے یعنی بیرونی عوامل ان کے فیصلوں اور مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں تو ان کی زندگی بے سکونی اور بے چینی سے بھری ہوتی ہے۔ خوشحالی اور اطمینان بھری زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے LOC کو اندرونی چیزوں یعنی وژن ، خواب ، اہداف اورارادے کی بنیاد پر رکھے اور یہ عوامل اس کے LOCکو کنٹرول کرے نہ کہ باہر کے چھوٹے چھوٹے مسئلے اور جھگڑے۔عام طورپر ہمیں معلوم نہیں ہوتا اور ہم باہر سے کنٹرول ہورہے ہوتے ہیں،جس کا خمیازہ ہمیں برے نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑتاہے۔
باہر کے عوامل سے اپنے LOCکو کیسے بچانا ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل چیزوں کا خیال رکھیں۔
▪لوگوں کے تاثرات، رویے اور باتیں
اکثر لوگ ہر وقت اسی کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں کہ لو گ کیا کہہ رہے ہیں ۔کیسا محسوس کررہے ہیں ۔اس سوچ کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان ان لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش میں اپنے آپ کو ہلکان کردیتا ہے ۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ اصول مقرر کرنے پڑیں گے جن پربہر صورت عمل کرنا ہوگا۔
اصول نمبر 1:
آپ ہر انسان کو مطمئن نہیں کرسکتے اور نہ ہی سب کو خوش رکھ سکتے ہیں۔جب انسان اس حقیقت کو مان جائے تو پھراس کے لیے اپنی زندگی چلانا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔
اصول نمبر 2:
آپ اپنی زندگی کے خود ذمہ دار ہیں ، لوگ نہیں۔لوگ کامیاب ہوں نہ ہوں،آپ کامیاب اور ناکام ہوتے ہیں۔میں نے ایسے تمام گھروں کے بچوں کے مستقبل مشکوک دیکھے ہیں جن کے اہم فیصلے چاچو، ماموں یاکوئی اور کررہا ہوتا ہے۔تعلیم ، پروفیشن اور شادی ،انسان کی زندگی میں ان تینوں کی بنیادی اہمیت ہے اور اس معاملے میں کسی بھی انتخاب کے لیے وہ آزاد ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ انسان کے اتنے اہم فیصلے دوسرے لو گ کیوں کرتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ جب اپنا بندہ کمزور ہو تو پھر گھر کے فیصلے اِرد گرد کے لوگ کرنے لگ جاتے ہیں۔اگر اباجی کمزور ہیں توپھر چچا جی طاقتور ہوجائیں گے اور پھر ان کے فیصلے کو قبول بھی کرنا پڑتا ہے۔چونکہ ہم کمزور واقع ہوجاتے ہیں تو جو طاقتور ہوتے ہیں وہ اس کمزوری کے ذریعے ہمارے فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔آج سے یہ طے کریں کہ اپنے فیصلے خود کریں گے ۔
اصول نمبر 3:
کبھی اس راستے پر نہ چلیں جس پر آپ کا دِل نہیں مانتا۔
آپ نے چلنا اسی راستے پر ہے جس پر دِل کے اندر سے آواز آئے کہ ہاں یہ ٹھیک ہے ،تو پھر درست ہے لیکن اگر آپ کے اپنے ہی دِل میں اس رستے کے بارے میں شک ہے تو پھر اس کو اپنانے کی غلطی نہ کریں۔جبکہ یہاں اس کے برعکس ہوتا ہے ۔جس راستے پر ہمارا دِل نہیں مان رہا ہوتا لوگ ہمیں اس پر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اصول نمبر4:
دو سوال اپنے آپ سے ہمیشہ پوچھا کریں ۔
(1)کیا یہ کام واقعی میں کرنا چاہتا ہوں ؟
(2)یہ کام میں لوگوں کے خوف کی وجہ سے تو نہیں کررہا ؟
ان سوالا ت کو اپنی زندگی کی چیک لسٹ بنائیں اور باقاعدگی سے اس کو چیک کیا کریں کہ آیا جو کام میں کررہا ہوں وہ فقط لوگوں کے پریشر کی وجہ سے تو نہیں کررہا۔اگر ایسا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنا ریموٹ کنٹرول دوسرو ں کے ہاتھ میں دیا ہوا ہے ۔جب بھی انسان دوسری رائے اور باتوں کو اہمیت دینے لگتا ہے توپھر لوگ بھی اس کو چڑاتے ہیں ۔
Locus of control
کے بارے میں بتانے کا مقصدیہ ہے کہ انسان یہ سیکھ جائے کہ
Learn to control yourself
یعنی لوگ آپ کو کنٹرول نہ کریں ،بلکہ آپ خود کو کنٹرول کریں ۔آج ہی آپ اپنی زندگی کے ان تمام لوگوں کی ایک لسٹ بنادیں جن کو آپ نے سنجیدہ طورپر نہیں لینا. خوش گوار زندگی کے لیے یہ بہت اہم ہے ،چونکہ بعض لوگ انسان کی زندگی میں ایسے ہوتے ہیں جن سے صرف رستہ لینا ہوتا ہے ان کی باتوں اور تبصروں کو سنجیدہ نہیں لینا ہوتا کیونکہ دنیا کی سب سے زیادہ بدلنے والی چیز لوگوں کی رائے ہے۔
▪حالات کو اختیار نہیں دینا:
اس حقیقت کو ماننا ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کے ساتھ جو ہوتا ہے اس پر انسان کا اختیار نہیں ہوتالیکن اس پر ردِ عمل کیسے دیناہے ،یہ اس کے اختیار میں ہوتا ہے ۔ ہمیں حالات کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ فیصلہ کریں کہ میرا موڈ کیا ہوگا۔اس چیز کی جب تک انسان پریکٹس نہ کرے تو وہ نہیں سیکھ سکتا ۔یادر کھیں کہ زندگی کی مثال دریا کی سی ہے ۔جس طرح دریا کے رستے میں بڑے بڑے پہاڑ آتے ہیں لیکن وہ رُکتا نہیں بلکہ ہر موڑ پر اپنے لیے راستہ نکال لیتا ہے ایسے ہی زندگی کے دریا کے سامنے بھی تنقید، مخالفت اور مشکل حالات کے پہاڑ آتے ہیں ، اس صورت میں اپنا رستہ تھوڑا بدل لینا ہے لیکن دریا کی طرح بہتے چلے جانا ہے ،رُکنا نہیں ہے۔
تاریخ میں ایک بہترین مثال سقراط کی ملتی ہے ،جب ایک شخص اس کے سامنے اس کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور سقراط جواباً مسکرا رہا تھا ۔قریب ہی اس کے ساتھیوں میں سے ایک بیٹھا ہوا تھااس نے سقراط سے پوچھا کہ آپ کو غصہ نہیں آرہا ؟سقراط نے جواب دیا:
’’یہ جو بول رہا ہے وہ میں نہیں ہوں۔‘‘
▪ماضی
کبھی بھی اپنی ماضی کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کا Locus of control چھین لے۔
یہاں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جنہیں ان کا ماضی چلارہا ہوتا ہے ۔زندگی میں ایک واقعہ برا ہوا اور انہوں نے اس واقعے کو اپنے ساتھ جوڑلیا اورپھر ساری زندگی اسی کو لے کر آنسو بہاتے رہے اور اپنی خداداد انرجی و صلاحیت کو اسی کے ماتم میں لگاتے رہے۔اس کی مثال اس انسان کی طرح ہے جس نے پانچ ،چھ بوریاں اٹھائی ہوئی ہوں تو پھر یقینااس کے چلنے کی رفتار بہت آہستہ ہوگی اور وہ دوسرا کوئی کام نہیں کرسکے گا۔
▪ماضی کس لیے ہوتا ہے؟
ماضی تین کاموں کے لیے ہوتا ہے:
(۱)ماضی سے ہمیشہ صرف سبق لینا چاہیے۔
(۲)ماضی ہماری Capacity building کرتا ہے۔
(۳)ہر چیلنج میں کوئی نہ کوئی خیر چھپی ہوتی ہے ۔انسان کی زندگی میں کئی سارے ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کے بارے میں جب وہ نئے انداز سے سوچتا ہے تو اس کو سمجھ آجاتی ہے کہ یہ تو میری خوش نصیبی تھی ، کیونکہ اس واقعے کی بنیاد پر بعد میں جو کچھ بہتر ہوتا ہے ،تو اگر وہ واقعہ نہ ہوتا تو یقینا بعد میں بھی کچھ نہ ہوتا۔
▪بھول جانا سیکھیں!
جس انسان کا بھی کوئی خواب ہوتا ہے اس کے لیے معاف کرنا اور چھوڑدینا آسان ہوتا ہے ۔انسان کو تابناک مستقبل سے روکنے والی دوچیزیں ہیں ۔ایک ماضی اور دوسری چیز مستقبل میں کسی خواب کا نہ ہونا۔جب انسان کے پاس کوئی گولزاور ٹارگٹس ہی نہیں ہیں تو پھر وہ آگے کیسے جائے گا؟
معاف کرنے کی علامت یہ ہے کہ انسان اس کا تذکرہ ہی نہیں کرتالیکن بہت سارے افراد ایسے ہیں جو اکثر کہتے رہتے ہیں کہ میں نے فلاں تکلیف میں اتنا صبر کیا ۔اس کے بارے میں آسان سا کلیہ سمجھ لیں ۔جو بھی انسان اپنے مسئلے کو دنیا کے کٹہرے میں لیے پھررہا ہوتا ہے دراصل اس نے صبر نہیں کیا ہوتا۔اسی طرح بعض لوگ شکوہ شکایت کے طورپر دوسروں کی غیبت کرتے نظر آتے ہیں اور بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ پہلے انسان نے اتنی غلطی نہیں کی ہوتی جتنی کہ دوسرے نے اس کی غیبت کی ہوتی ہے۔
صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان سپریم کورٹ میں چلا جائے ،جو کہ سیشن اور ہائی کورٹ سے بہت اوپر ہے اور وہاں جاکرانسان اپنی عرضی اللہ کے سامنے پیش کرے ،جبکہ ہر جگہ اور مقام پر اپنے صبر کا چرچا کرنے والا انسان صبر نہیں بلکہ اپنے برداشت کی برانڈنگ کررہا ہوتا ہے۔سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 153میں اللہ فرماتا ہے:
’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اسی لیے بڑے بابے کہتے ہیں کہ
’’ گناہ کی یاد بھی گناہ ہے۔‘‘
جس گناہ کا تذکرہ انسان فخر سے کررہا ہوتا ہے تو اس پر اس کی معافی نہیں کیونکہ وہ اپنے گناہ پر خود گواہی دے رہا ہوتا ہے۔خاموش گناہ گار کو اللہ معاف کردیتا ہے لیکن ڈنڈھورا پیٹنے والا رحمت سے دور ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ سماج کو بھی گناہ پر آمادہ کررہا ہوتا ہے.
▪اپنے رشتوں کو کبھی اپنی کمزوری نہ بننے دیں.
رشتے کا مطلب طاقت ہوتا ہے ۔رشتہ فرض اور ذمہ داری تو ہوسکتی ہے مگر بوجھ نہیں ۔کسی بھی رشتے کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ آپ کو اس قدر مجبور کردے اورآگے بڑھنے میں آپ کے لیے رُکاوٹ بن جائے ۔اکیلے خوش رہنا سیکھیں۔انسان کی اصل پہچان اس کی تنہائی ہے ۔بزرگ کہتے ہیں کہ انسان کی قبرمیں وہی حالت ہوگی جو اس کی اپنے ساتھ تنہائی میں ہوتی ہے ۔ جس انسان کو اپنی خلوت مزہ نہیں دیتی وہ دوسروں کو بھی بور کردیتا ہے ۔تنہائی میں بیٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کا اپنا آپ بیٹھا ہوتا ہے ۔اب اگر آپ کو کوفت ہورہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اندر واقعی کوفت ہے۔
▪کبھی پیسے کو اجازت نہ دیں کہ وہ آ پ کو کنٹرول کرے.
دیکھا یہ گیا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو پیسا کنٹرول کررہا ہوتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی زندگی میں خوشحالی بڑی اہمیت رکھتی ہے لیکن اس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ ہی ’’خوش حالی‘‘ہے ۔اسی طرح بعض لوگوں کو صرف نفع و نقصان کنٹرول کررہے ہوتے ہیں ۔میرے نزدیک انسان اپنی زندگی میں نقصان اٹھالے لیکن اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہ کریں۔
آپ کے ساتھ جب بھی کوئی مسئلہ ہوجائے تو کسی بھی طرح کاردِعمل دینے سے پہلے ایک بار یہ ضرور سوچیں کہ ایسا تو نہیں کہ یہ مسئلہ مجھے کنٹرول کررہا ہے ۔اگر ایسا ہی ہے تو رُک جائیں، اپنی سوچ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیں۔اس کی بار بار مشق کرنے سے آپ اپنے LOCکو بہتر بناسکتے ہیں اور یقین جانیں کہ انسان جب اپنے
Locus of control
کو اپنے کنٹرول میں لے لے تو وہ بہت ساری مشکلات اور مسائل سے بچ سکتا ہے اور ایک خوش گوار زندگی جی سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment